اخبارات و رسائل میں جو اشتہارات شائع ہو رہے ہیں۔ ان میں مرکزی کر دار والی لڑکی کو بے حد نازک اور دبلا پتلا دکھایا جا تا ہے۔ ان اشتہاروں کو دیکھنے والی عام لڑکیا ں ان دبلی پتلی خواتین کو قابل تقلید یا اپنے لیے ایک بہترین مثال سمجھتی ہیں اور یہ چاہتی ہیں کہ اتنی دبلی ہو جائیں کہ کوئی پھونک مارے تو اڑ جا ئیں۔ دبلا ہونے کے لیے وہ لا کھ جتن کر تی ہیں۔ بعض ایسی بھی ہیں جو اپنی غذ ا کو گھٹاتی چلی جاتی ہیں۔ اور بالآخر Anorexia یعنی بے اشتہائی یا عدم اشتہا کے مرض میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو کم خوراک کا اس قدر عادی بنا لیتی ہیں کہ بھوک ختم ہی ہو جا تی ہے۔ مغربی ممالک کی خواتین میں یہ مرض بڑھتا جا رہا ہے۔ چنا نچہ برطانیہ کے ماہرین صحت نے سخت پریشانی کے عالم میں ابلاغ عامہ کے کارکنوں سے درد مندانہ اپیل کی ہے کہ وہ قومی مفا د کو پیش نظر رکھتے ہوئے کچھ تندرست و توانا بلکہ مائل بہ فربہی لڑکیوں کو اپنے اشتہا روں میں پیش کریں تا کہ عام لڑکیوں کے ذہن سے یہ بات نکل جا ئے کہ بس سارا حسن دبلے پن ہی میں چھپا ہو ا ہے۔
ان ماہرین صحت کا کہنا ہے۔ کہ دنیا میں مختلف جسامت کی عورتیں ہو تی ہیں، جو اپنی اپنی جگہ خوبصورت اور پر کشش بھی ہو تی ہیں، لیکن یہ اشتہا ر والے بس دبلی پتلی اور لاغر لڑکیو ں کو ہی اپنے اشتہا روں میں جگہ دے کر یہ ظاہر کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ سارا حسن دبلے پن میں ہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اشتہاروں کا اثر قبو ل کرنے والی لڑکیوں نے کھا نا پینا چھوڑ دیا ہے۔ وہ لاغر ہونے کے با وجو د مزید دبلا ہونا چاہتی ہیں اور اس طر ح اپنی صحت کو نا قابل تلا فی نقصان پہنچا لیتی ہیں۔
عدم اشتہاء کی بیماری صرف جسمانی نقصان تک محدود نہیں رہتی بلکہ رفتہ رفتہ اس کے نفسیاتی اثرات کو بھی مرتب ہوتے ہیں۔ ایک طر ف تو جسم لازمی غذائی اجزا ءاور عناصر سے محروم ہونے کے با عث مختلف عارضوں میں مبتلا ہو جا تا ہے۔ اوردوسری طرف رفتہ رفتہ اس خود کردہ خرا بی کا اثر مسلسل ذہن پر طاری رہتا ہے۔ عدم اشتہا سے پیدا شدہ عارضو ں کی وجہ سے سماجی اور گھریلو زندگی مسائل کا شکار ہو جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ کبھی لوگوں اور سما جی سرگرمیو ں سے قطع تعلق، کبھی طلاق اور کبھی خودکشی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ ابلاغ عامہ سے ماہرین صحت کی اپیل کو بر طا نیہ کے با اثر حلقوں کی حمایت حاصل ہے اور وہ سب اس بات سے متفق ہیں کہ اشتہارو ں میں جسم کی صرف ایک ساخت کے بجائے ہر طرح کے جسم والوں کو حصہ ملنا چاہئے۔
ادھر ایک تحقیقی جائزے میں یہ بتایا گیا ہے کہ نوجوان لڑکیا ں اس لیے تمبا کو نو شی کرتی ہیں کہ وہ مو ٹی نہ ہونے پائیں۔ جا ئزے کے مطا بق صرف ایک فی صد لڑکیا ں ایسی ہیں جو اپنی ساتھیو ں کی دیکھا دیکھی یا سماجی مقبولیت کی خاطر تمباکو نوشی کر تی ہیں جب کہ 30 فی صد کا خیال یہ ہے کہ وہ اگر تمبا کو نوشی ترک کریں گی تو موٹی ہو جائیں گی۔ بر طا نیہ کے کینسر ریسرچ کمیشن کی جا نب سے تیا ر کردہ اس تحقیقی جائزے سے پتا چلتا ہے کہ لڑکیوں کو تمبا کو نوشی ترک کرنے پر آمادہ کرنا اتنا آسان نہیں جتنا کہ عام طور پر سمجھا جاتا تھا اور اس کی خاص وجہ یہی ہے کہ لڑکیا ں دبلا ہو نے پر تلی ہوئی ہیں۔ غذائی بیماریوں کے ایک ماہر نے، جن کا تعلق لندن کے سینٹ جا رجز ہسپتال سے ہے، خیال ظاہر کیا کہ گو لڑکیو ں کایہ تجربہ اہم ہے کہ تمبا کو نو شی وزن کم کرنے میں مدد دیتی ہے، لیکن اس حقیقت سے انکا ر نہیں ہو سکتا کہ تمبا کو نوشی کے طویل المیعاد اثرات تباہ کن ہوتے ہیں۔ لڑکیا ں یہ با ت جانتی ہیں کہ اگر وہ تمبا کو نو شی ترک کر دیں گی تو ان کی صحت بہتر ہو جائے گی۔ تحقیقی جائزہ تیار کرنے والے سائنس دانوں نے بر طا نیہ میں دو ہزار اور کینڈ ا میں آٹھ سو نوجوان لڑکیو ں سے سوالات کیے۔ ان میں سے مجمو عی طور پر 20 فی صد لڑکیاں تمبا کو نوشی کررہی تھیں۔ پند رہ سولہ سال کی ایک چوتھائی لڑکیا ں تمبا کو نو شی کرتی تھیں اور ان میں یہ عادت دوسری عمر کی لڑکیوں کی نسبت زیادہ پختہ تھی۔ وزن کے اعتبار سے دیکھا گیا تو پتہ چلا کہ تمبا کو نوشی کا سب سے زیا دہ تنا سب ( تیس فی صد ) ان لڑکیو ں میں تھا جن کا وزن ذرا زیا دہ تھا۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لڑکیا ں عام طور سے تمباکو نوشی کی ابتداءاس وقت کر تی ہیں کہ جب انہیں ماہواری کا سلسلہ شروع ہو تا ہے۔ تحقیق کے مطا بق اس کی وجہ بظاہر یہ ہے کہ ما ہواری کے آغاز کے وقت ان کے جسم میں جو قدرتی تبدیلی آتی ہے اسے وہ موٹاپا سمجھتی ہیں۔ سینٹ جارجز ہسپتال کے ماہر پروفیسر آرتھر کرسپ کو بھی ایسے شواہد ملے ہیں جن کے مطابق تمبا کو نوشی سے وزن کم کر نے میں مدد ملتی ہے۔ تمباکو نوشی کرنے والی لڑکیوں کا وزن عام طور سے سن بلو غ کے دوران کم ہو تا ہے۔
تحقیقی جا ئزے کے دوران لڑکیو ں سے جب پو چھا گیا کہ وہ تمبا کو نو شی کیوں کرتی ہیں تو زیا دہ لڑکیوں نے مبہم قسم کی باتیں کیں مثلا ً کچھ کا جو اب یہ تھا : ” بس ہمیں اچھی لگتی ہے۔ “ کچھ نے کہا : ” اس سے ہمیں سکون ملتا ہے۔ “کچھ نے جوا ب دیا : ” یہ ہے ہی پینے والی چیز !“ جب ان لڑکیو ں سے کہا گیا کہ کوئی ٹھوس بات کریں تواکثریت نے کہا وہ کھانا کم کھانے کے بجا ئے تمباکو نوشی کرتی ہیں یا وہ بھوک کم کرنے کے لیے تمباکو نوشی کرتی ہیں۔ پروفیسر کرسپ نے بتا یا کہ انہیں اس بات سے تشویش ہے کہ بہت سی ایسی لڑکیاں جو ٹھیک ٹھا ک نظرآتی ہیں، اپنے موٹاپے سے پریشان ہیں۔ انہیں خوامخواہ اپنے موٹاپے کی فکر ہے۔ اور یہ پریشانی بھی ہے کہ کہیں ان کی غذا ان کے قابو سے باہر نہ ہو جائے۔ وہ اپنے وزن کو قابو میں رکھنے کے لیے سگریٹ پی رہی ہیں، لیکن انہیں یہ خیال نہیں کہ پیسہ پھونک کر وہ اپنی زندگی ختم کر رہی ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں